ناول:سفال گر
بقلم بشری سعید
🦋مٹی کو کسی سانچے میں ڈھال کر نئ شکل دینے والے کو سفال گر کہتے ہیں.جیسے مٹی کے برتنوں کو اشکال میں ڈھالتے ہوئے کچھ برتن اتنے خوبصورت اور مکمل لگتے ہیں ایسے ہی کچھ انسان اپنے اعمال کی بنا پر ایسے ہی خوبصورت لگتے ہیں جب کہ اس کے برعکس ذرا سی بے احتیاطی یا سختی سے جیسے کچھ برتن بے ڈھب ہوجاتے ہیں ایسے ہی بے جا سختی کی بنا پر کچھ انسان بھی بے مقصد بن جاتے ہیں
🦋
Safal gar novel Cover:
آج میں جس کتاب کا ریویو لکھنے جارہی ہوں مجھے نہیں لگتا کہ میرے الفاظ اس کتاب کی خوبصورتی سے انصاف کر پائیں گے۔ مجھے یہی سننے کو ملا کہ یہ ایک پیچیدہ کتاب ہے لوگ اس کو بیچ میں چھوڑ دیتے ہیں۔ یقین مانیں بہت غلط کرتے ہیں۔ جانتی ہوں شروع میں سمجھ نہیں آتی لیکن آپ کو ایک بار کہانی سمجھ آنے لگی تو آپ اس کتاب کو رکھ نہیں پائیں گے۔
میں بات کررہی ہوں سفال گر کی۔ اردو ادب میں ایک بہترین اضافہ۔ اتنی بہترین اور مکمل کتاب میں نے بہت لمبے عرصے میں نہیں پڑھی تھی۔
کہانی ہے احمد ابراہیم، پرنیاں کی، البا کی، صوفیہ اور عمر کی، حکیم بیگم اور داؤد کی۔ یہ کہانی انہی کرداروں کے گرد گھومے گی اور ان کی زندگی کے مختلف ادوار میں ہونے والی اونچ نیچ سے روبرو کرواۓ گی۔ کہانی میں حساس موضوعات پر بات کی گئ۔ یہ کہانی ہے اللہ پر کامل یقین رکھنے والوں کی، اپنے خوابوں کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے والوں کی، محبت میں اندھے ہو جانے والوں اور خودغرض لوگوں کی۔ یہ کہانی ہے ہم جیسے انسانوں کی۔
اس کہانی میں آپ کو ڈھونڈنے سے بھی جھول نہیں ملے گا۔ پلاٹ، مکالمے، کردار سازی ہر چیز اتنی بہترین تھی کہ میں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لی تھیں۔ بہت سال پہلے اس ناول کی ایک قسط میں نے ڈائجسٹ میں پڑھی تھی اور وہ میرے دماغ سے نہیں نکلی کبھی۔
اتنا شاندار پلاٹ اور سسپنس تو اتنی باریکی سے بنا ہے نا مصنف نے کہ میں حیران ہی رہ گئ تھی۔ مکالمہ نگاری تو اس کتاب کی جان تھی اتنی بہترین کہ ہر لائن ہی مارک کرنے کا دل کرے گا۔
سفال گر کی کہانی کے مرکزی کردار میں شامل ہے احمد گرانٹ جو ہالی وڈ کا بہت بڑا سلیبریٹی بننا چاہتا ہے۔ کہانی کا دوسرا کردار پرنیاں کا ہے جو عیسائی ہوتی اور گرانٹ کی محبت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ کہانی میں ایک ٹریک حکیم بیگم اور عمر کا بھی چلتا ہے جو گائوں میں رہتے ہیں اور حکیم بیگم عمر کی بہترین تربیت کرتی ہے۔ کہانی کے بقیہ کردار سوفیہ اور البا کے بھی ہیں جو اپنی اپنی مشکل اور ڈارک زندگیوں کو جی رہے ہوتے ہیں۔ ان کی زندگیاں کہاں اور کیسے نئے نئے رخ موڑتی ہیں۔ پرنیاں اور گرانٹ کی زندگیاں کیسے آگے بڑھتی ہیں اور حکیم بیگم اور عمر کا کیا ہوگا یہ سب آپ کہانی پڑھ کر جانیں گے کیونکہ میری نظر میں اس کہانی کے متعلق تھوڑا سا بھی کچھ بتانا سپوائلر ہوجائے گا جو اس کہانی کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
بشری سعید کا یہ پہلا اور واحد ناول تھا جو میں نے پڑھا اور میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اتنا مختلف انداز آپ بہت ہی کم پڑھتے ہیں۔ ناول میں دو مختلف ادوار اور دو مختلف ملکوں یعنی امریکہ اور پاکستان کی زندگیاں دکھائی ہیں اور ان سب کو ایک ساتھ لے کر چلنا بے حد مشکل کام تھا جو مصنفہ نے بخوبی نبھایا۔ ناول کے مکالمے بے حد متاثر کن تھے اور کسی حد تک منفرد بھی جو کہانی کی جان بن گئے۔
کہانی کی ایک اور بڑی خوبی جو تھی وہ یہ تھی کہ کہانی میں grey characters لکھنے کی بہترین کوشش کی گئی ہے جو کہانی کو مزید خوبصورت بناتے ہیں۔ کہانی میں اکثر کردار ایسے تھے جس میں کہیں نہ کہیں کوئی برائی بھی تھی اور کہیں نہ کہیں کوئی اچھائی بھی۔