اس
کہانی میں موجود
کردار فقط کردار نہیں "سوچ " ہیں۔ نظریہ، خصلت اور فطرت ہیں۔
میرے نزدیک اس کہانی کے تین مرکزی کردار ہیں۔ گل رعنا، کامل ہشام اور تیسرا
کردار جسے کہانی میں صرف چند سطروں کا وقت دیا گیا پریم ویر ہے۔
ہم زندگی کے کسی لمحے میں اپنی ہمت مجتمع کر کے گل رعنا بنتے ہیں۔ تو کسی گھڑی کسی
خوف کے غلام ہو کر کامل ہشام۔ اور کسی پل تمام مصلحت بلائے طاق رکھ کر اپنے ضمیر
ست فیصلے پر قدم دھرتے پریم دیر ہوتے ہیں۔
آپ نے اللہ کے سامنے سر جھکایا تو اس نے آپ کو بلند کیا۔ ہم
آج بھی کسی نے سن لیا تو کیا ہو گا؟، کسی نے کچھ کہہ دیا تو جگ ہنسائی ہو گی، کسی
نے دیکھ لیا تو رسوائی ہو گی۔" کی سوچ اور خوف میں میں قید ہیں۔ ہم آج بھی انہی
جملوں کے غلام ہیں۔ ہمیں یہ بھول گیا ہے کہ اللہ سن رہا ہے، اللہ دیکھ بھی ر
بھی کر رہا ہے۔ ہماری سماعتیں بہری، آنکھیں اندھی اور آواز گونگی ہو چکی
ہم کامل ہشام ہو چکے ہیں۔
دنیا میں کامل ہشام بہت ہوتے ہیں۔ مگر دنیا میں گل رعنا کوئی کوئی ہوتا ہے۔ جب
کے مقابل
وہ ہوں جو اسے زندگی سے عزیز ہوں۔ اور ان کی نظروں میں مجرم ہو جانا
اس لمحے اللہ کی بارگاہ میں باعزت ہونے کی ضمانت ہو تو ہر کوئی ایسی جرات نہیں کرتا۔
جسے اللہ کا خوف ہو اسے دنیا کا خوف نہیں رہتا۔ جسے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی
طلب ہو اسے زمینی طلب سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ جسے اللہ کی محبت عزیز ہو، اس کے
لئے دنیا کی لاحاصل محبت کے مرہم کا سدباب کر دیا جاتا ہے۔ گل رعنا پر اسی نعمت کو
تمام کیا گیا تھا۔ وہ عظیم اور جرات مند عورت تھی۔
اور پھر آخری کردار پریم ویر۔ ایک بہت عام لیکن ایک عظیم کردار۔ اگر پریم ویر کے نقطہ
نظر سے دیکھا جائے تو وہ اپنی قوم، اپنے مذہب اور اپنے لوگوں سے دعا کر رہا تھا۔ اس
کی قوم کے لئے یقیناً پریم ویر ایک غدار تھا۔ لیکن اس نے اس لمحے وہ فیصلہ کیا جو ضمیر
کو گوارا تھا۔ وہ فیصلہ کرتے اس نے دل پر ہاتھ رکھا ہو گا اور دل نے اسے ملامت نہ
کی ہو گی۔
وہ کامل ہشام کی طرح ساری عمر ایک پچھتاوے کی سزا نہیں بھگت رہا ہو گا۔
ستر سال پہلے قربانی دینے والوں کے احساسات کو محسوس کریں تو ہم جان جائیں
نے پاکستان حاصل کر لیا مگر ہم نے نظریہ بھلا دیا۔ حق کو بھول گئے۔
قربانیاں فراموش کر دیں۔ آنسوؤں سے نظریں چرا لیں۔ سسکیاں، آہوں اور بلکتی ہوئی
صداؤں پر کان بند کر لیے۔ لٹے ہوئے قافلوں اور اٹھے ہاتھوں . نسلوں کی بقا کی
دعائیں مانگتے ہونے آباؤ اجداد کے خون آلود جسموں کی طرف سے آنکھیں موند لیں۔
دلوں کو زنگ آلود کر لیا اور ہم نے اللہ کے حق کو بھلا دیا۔
پاکستان کی تاریخ کی کوئی بھی کہانی پڑھتے ہوئے میرے دل میں ہمیشہ یہ خیال آتا ہے کہ جو جا چکے ہیں وہ جب
رہ جانے والوں اور نئی نسلوں کے اعمال دیکھتے ہوں گے تو وہ شاید اللہ اور اس کے رسول اسلم کے سامنے بیٹھ
کر بھی بلکتے ہوں گے۔
وہ بیٹے جنھیں چھاتی تان کر ماؤں کے سامنے فخر سے کھڑا ہونا تھا۔ ان بیٹوں کی میتوں کی پیشانی چوم کر انھیں
اللہ کے حوالے کرتے پلٹتے ہوئے ماؤں کے پھٹتے دلوں کے ہم آج بھی قرض دار ہیں۔ وہ جوان بیٹے جو ماؤس
کی مسخ شده میتوں کو چھوڑ کر بلکتے ہوئے ہجرت کر گئے تھے۔ وہ بھائی جنہوں نے بہنوں کو کھلکھلاتے دیکھا تھا
وہ ان بہنوں کی لٹی پٹی میت کو ایک کلمے کے لئے چھوڑ کر نکلے تھے۔
وہ باپ جو بیٹے کے شانہ بشانہ کھڑے
ہونے کے خواب دیکھا کرتے ہوں گے اور بیٹیوں کی ڈولی کے جگنو آنکھوں میں سجائے ہوں گے وہ باپ جب
جوان بیٹے کو پھٹے ہوئے جسموں کو چھوڑ کر لا إِلهَ إِلَّا الله محمد رَسُولُ اللہ کے نام پر بنے ملک کی جانب بڑھتے
ہوں گے۔
وہ آپ سے اور مجھ سے سوال
کرتے ہوں گے۔ اور روتے ہوئے افسوس کرتے ہوں کہ ہماری نسلوں نے کلمے کے نام پر حاصل کے گئے اس
ملک کا کیسا حشر کیا؟ وہ روتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ اللہ اس زمین پر ہماری ماؤں بیٹیوں بہنوں، بھائیوں
بیٹےوں اور باپ کا لہو شامل ہے اور ہماری نسلوں نے اس لہو کی قدر نہیں کی۔
آپ چند دن اس کہانی کے حصار میں رہیں گے اور شاید کچھ وقت بعد اس کہانی کو بھول جائیں۔ یہ کہانی آپ
سےگزارش کرتی ہے کہ آپ اس ملک کی قدر کریں۔ آپ پر فرض ہے کہ ملک کی بہتری کے لئے فقط ایک ہی
۔مگر قدم بڑھائیں۔ اگر کچرا سڑکوں پر پھینکتے ہیں تو وہ نہ پھینکیں۔ جس کی روٹی اسے آپ کے طفیل ملنی
ہے۔ اس روٹی میں بددیانتی نہ کریں۔ چور راستوں کو چھوڑ دیں۔ جو آپ کے بس میں ہیں اس چیز کو بہتر کرنے
کی کوشش کریں۔
روٹی، پانی، کپڑا، عزت، ذلت اور بلندی سب اللہ دیتا ہے۔ اس کی طلب لوگوں سے لگانا چھوڑ دیں۔ ریاکاری نہ
کریں۔ دکھاوا ہر عمل کی دھول بنا دیتا ہے۔ وہ ہر عمل کی اہمیت کو نفی کر دیتا ہے۔
اللہ سے رحم مانگیں، اس سے ہدایت اور نعمت مانگیں۔
آخر میں یہی کہوں گی کہ گل رعنا نے صرف اپنا سچ نہیں کہا۔ اس نے
اللہ کا رہتی دنیا تک قائم کردہ مقصد کہا تھا۔ بشر کا، آدم کا، انسان کا
اور ہر نفس کا مقصد۔
لیڈی مہر النسا آپ نے اس کہانی کی بہت خوبصورتی سے قلمبند کیا۔ اللہ
آپ کے لکھے کو مزید پرنور بنائے۔
اللہ کے لئے لکھا ایک جملہ بھی شاید لوگوں کے لئے لکھی گئی ہزاروں
کتابوں سے بہتر ہو۔ جنہوں نے بوگی نمبر بارہ ابھی تک نہیں پڑھا میں
انھیں تجویز کروں گی کہ وہ یہ ناولٹ ضرور پڑھیں۔
Bogi number bara special journel
👉👉Download Bogi number 12 (BNB)