اب وہ لڑکی بھاگی ہے، اغواء ہوئی ہے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
دوسرا قصہ ہے واسع کا جو وکیل بن کر اپنے گاوں کے لوگوں کے مسائل حل کرنا چاہتا ہے مگر اس کے اپنے گھر والے ہی سیاپا ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔ واسع کے ایک چاچا نے واسع کے باپ سے باغ ہتھیا لیا ہے۔ پھر جو جھگڑے اور سازشیں شروع ہوتی ہے وہی کہانی چلتے چلتے نازنین کی کہانی سے ملتی ہے۔ (واہ کیا موڑ تھا❤)
مزہ آیا۔ نازنین کا کردار پورے ناول پہ بھاری رہتا ہے۔ عام سی روتی دھوتی مجبور ہیروئنوں کی جگہ نازنین ایک مضبوط کردار ابھر کر سامنے آتا ہے۔ مجھے ہیروئنز کم ہی پسند ہیں، بلاشبہ نازنین بھی ان میں شامل ہو گئی ہے جو مجھے پسند آتی ہیں۔
واسع، نازنین کے مقابلے میں پیچھے رہا کیونکہ وہ کر تو بہت کچھ سکتا تھا مگر مصنفہ نے اسے یہ کہہ کر چپ کروادیا کہ "زیادہ ہیرو نہ بنو، چپ کر کے بیٹھو!😂" ویسے یہ اچھا ہوا کہ واسع باقی ہیروز کی طرح چھچھورا بالکل نہ تھا۔
اچھا بندہ تھا۔
کہانی میں سازشیں مزے کی ہیں۔ سسپنس اچھے ہیں۔ کردار چالاک ہیں۔ کیا بات کب اور کیسے کرنی ہے، ان کو بہت خوب پتا ہے۔
بلوچستان کو بھی خوبصورتی سے کہانی میں ڈالا گیا ہے۔ پسند آیا ناول کافی! فرح بخاری کی یہ بات ہے کہ وہ کہانی کے علاقوں کو بہت فوٹیج دیتی ہیں۔ بھلے گل کوہسار کا مانسہرا ہو، بن پاکھی کا سندربن (بنگلہ دیش) یا وہ نازنین کا بلوچستان
مناظروں سے سینز میں ایک زندگی بھر جاتی ہیں۔
کہانی میں باقی کردار بھی قابل ذکر ہیں جیسے نیلم، نصیر، ذکی، سیف، پشمینہ، شبنم، جبار، رئیس۔
شکر ہے نام عام تھے ورنہ سب مکس ہو جا تا